Wednesday, 14 August 2013

PK-Independence day, Quid Azam’s Speech and Minority right’s [یوم آزادی،فرمان قائد اعظم اور اقلیتوں کے حقوق]

چوتھا طبقہ .... اشفاق رحمانی
Column by - REHMANI ASHFAQ
 آزادی ہند کے ایکٹ میں ہندوستان اور پاکستان کی آزادی کی تاریخ 15 اگست درج کی گئی تھی۔ قائداعظم نے 15اگست 1947ءکو پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کی افتتاحی تقریب پر قوم کے نام پیغام میں فرمایا ”بے پایاںمسرت اور تہنیت کے ساتھ میں آپ کو مبارک باد کا پیغام دیتا ہوں۔ 15 اگست آزاد اور خودمختار پاکستان کی سالگرہ کا دن ہے“۔ جولائی 1948ءمیں پاکستان کی پہلی ڈاک ٹکٹ جاری کی گئی اس پر بھی آزادی کی تاریخ 15اگست 1947ءدرج کی گئی۔ دانشور اور مورخ بتائیں کہ وہ کیا قومی تقاضے تھے کہ قائداعظم کے جانشینوں نے آزادی کی تاریخ کو ہی تبدیل کردیا۔
 قائداعظم نے اپنے 13اگست 1947ءکے خطاب میں فرمایا ”اب ہمارے سامنے ایک نئے باب کا آغاز ہورہا ہے۔ ہماری کوشش یہ ہوگی ہم برطانیہ اور ہمسایہ مملکت ہندوستان اور دیگر برادر اقوام کے ساتھ بھی خیر سگالی اور دوستی کے تعلقات استوار کریں اور انہیں برقرار رکھیں تاکہ ہم سب مل کر امن، امن عالم اور دنیا کی خوشحالی کے لیے اپنا عظیم ترین کردار ادا کرسکیں“۔قائداعظم نے خیر سگالی، دوستی، امن اور خوشحالی کا جو پیغام دیا تھا وہ ہی آزادی کی روح تھا۔ افسوس بھارت نے قائداعظم کے پرخلوص جذبے کی قدر نہ کی اور ہندو ذہنیت تبدیل نہ ہوئی۔ قائداعظم نے اپنے اسی خطاب میں فرمایا ”عظیم شہنشاہ اکبر نے تمام غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک کا مظاہرہ کیا۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی اس کی ابتداءآج سے تیرہ سو برس پہلے بھی ہمارے پیغمبرنے کردی تھی۔ آپ نے زبان سے ہی نہیں بلکہ عمل سے یہود و نصاریٰ پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہایت اچھا سلوک کیا ان کے ساتھ رواداری برتی اور ان کے عقائد کا احترام کیا“۔قائداعظم نے خود حضور اکرم کے اسوہ حسنہ (امانت، دیانت، صداقت اور شجاعت) پر عمل کردکھایا۔انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ ان کے پاکستان میں وہ دن بھی آئے گا جب مسلم اور غیر مسلم دونوں محفوظ نہیں ہونگے اور کلمہ گو مسلمان ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہونگے۔ کیا آج ہم سرور کائنات کے اسوہ حسنہ پر عمل کررہے ہیں ؟قائداعظم نے 15اگست 1947ءکو پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کی افتتاحی تقریب پر قوم کے نام ایک پیغام میں فرمایا ”نئی مملکت کی تخلیق کی وجہ سے پاکستان کے شہریوں پر زبردست ذمے داری آن پڑی ہے انہیں یہ موقع ملا ہے کہ وہ دنیا کو دکھا سکیں کہ ایک قوم جو بہت سے عناصر پر مشتمل ہے کس طرح امن و آشتی کے ساتھ رہ سکتی ہے اور ذات ، پات اور عقیدے کی تمیز کے بغیر سارے شہریوں کی بہتری کے لیے کام کرسکتی ہے“۔اسی خطاب میں قائداعظم نے مزید فرمایا ”امن اندرون ملک اور امن بیرون ملک ہمارا مقصد ہونا چاہیئے۔ ہم پر امن رہنا چاہتے ہیں اور اپنے نزدیکی ہمسایوں اور ساری دنیا سے مخلصانہ اور دوستانہ تعلقات رکھنے چاہتے ہیں۔ ہم کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں کررکھتے۔ ہم اقوام متحدہ کے منشور کے حامی ہیں اور امن عالم اور اس کی خوشحالی کیلئے اپنا پورا کردار ادا کریں گے“۔امن اور خوشحالی قائداعظم کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول تھا۔ افسوس ہم آزادی کی روح سے انحراف کرکے مسلسل بھٹک رہے ہیں۔ ہمارا چالاک اور مکار ہمسایہ بھی ہمارے لیے مصائب پیدا کررہا ہے۔ قائداعظم نے اپنے اسی پیغام میں فرمایا ”اے میرے ہم وطنو آخر میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان بیش بہا وسائل کی سرزمین ہے لیکن اس کو ایک مسلم قوم کے شایان شان ملک بنانے کیلئے ہمیں اپنی تمام توانائیوں کی ضرورت ہوگی“۔افسوس تو یہی ہے کہ بیش بہا وسائل کے باوجود پاکستان آج بھی زوال پذیر ہے۔ انقلابی عوامی جدوجہد کے بغیر پاکستان کو غاصبوں اور ظالموں کے قبضے سے نجات دلانہ ممکن نہ ہوگا۔جب تک آزادی کی روح بحال نہ ہوجائے ہم اپنے مسائل سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔

No comments:

Post a Comment