چوتھا طبقہ....اشفاق رحمانی( میڈیا مین فرام پی کے)
mediamanfrompk@gmail.com
وزیراعظم میاں نواز شریف نے سکھر کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورہ کے موقع پر ایک صحافی کے کالا باغ ڈیم سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ میں آپکے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا۔ کالا باغ ڈیم کے حوالے سے کوئی سوال جواب نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کافی عرصہ پہلے کالا باغ ڈیم کی حمایت کرتی تھی تاہم اب کچھ عرصے سے کالا باغ ڈیم پاکستان کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی، توانائی بحران اور دیگر مسائل کے حل کیلئے وفاق اور چاروں صوبوں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا۔ کالا باغ ڈیم کی افادیت اپنی جگہ موجود ہے لیکن تعمیر اتفاق رائے کے بغیر نقصان دہ ہو گی۔اس وقت ملک توانائی بحران اور بارشوں کے باعث سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے۔ ان دنوں بڑے مسائل کا حل کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں مضمر ہے۔ کالا باغ ڈیم کی افادیت پورے ملک کے سامنے ہے۔ اسکی تعمیر سے بجلی فی یونٹ ایک روپے پچاس پیسے ملے گی جبکہ سیلاب کے پانی کو بھی اسکے پونڈ میں محفوظ کرکے ایسے خشک سالی کے دوران بروئے کار لایا جا سکتا ہے اور اس سے سندھ اور بلوچستان کے خشک علاقوں کو بھی سیراب کیا جا سکتا ہے۔ 1991ءمیں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزراءاعلیٰ نے کالا باغ ڈیم بنانے پر اتفاق کیا تھا۔ اب بھی چند سیاستدانوں کے علاوہ پوری قوم اسکی تعمیر پر متفق ہے۔پنجاب جس کی بڑھتی آبادی ، صنعت و زراعت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی درکار ہے، کالاباغ بند کا منصوبہ بلاشبہ اس کی ان ضروریات کو نہ صرف پورا کر سکتا ہے بلکہ یہ پورے ملک کے لیے سستی بجلی کا ایک مستقل ذریعہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔پنجاب میں ایک عام رائے یہ ہے کہ بحیرہ عرب میں دریائے سندھ کا شامل ہونا دراصل پانی کے ذخیرے کا “ضائع“ ہو جانا ہے۔ یہ پانی ملک میں ان زمینوں کو سیراب کر سکتا ہے جو کہ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بنجر ہیں۔پنجاب کے نقطہ نظر میں کالاباغ بند کے علاوہ بھی دو بڑے منصوبے بھاشا بند اور سکر دو بند بھی تعمیر کیے جانے چاہیے۔ کالاباغ بند چونکہ ان تینوں منصوبوں میں بہتر وسائل کی دستیابی کی وجہ سے قابل عمل ہے تو اسے سب سے پہلے تعمیر ہونا چاہیے۔ بہاولپور اور بہاول نگر کے علاقے کالاباغ بند کے ذخیرے سے سب سے زیادہ مستفید ہوں گے۔پنجاب میں کالاباغ بند کی تعمیر کے حق میں کئی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں، بلکہ وقتاً فوقتاً عوامی سطح پر ایسے مظاہرے نقص امن کی بھی وجہ بنے ہیں۔ 1960ءکے اوائل میں بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کے معاہدوں پر پاکستان نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت ستلج اور بیاس کے حقوق بھارت کو دے دیے گئے۔ تب سے بھارت دریائے راوی، ستلج اور بیاس کو صرف سیلابی پانی کے اخراج کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے معاہدے کی رو سے ان دریاو ¿ں پر بند کی تعمیر کا حق رکھتا ہے۔ پاکستان کی وفاقی حکومت ان میں سے کسی بھی منصوبے پر واضع کامیابی حاصل نہیں کر سکی جس کے نتیجے میں صوبہ پنجاب کو فراہم کیا جانے والا پانی صرف تین دریاو ¿ں تک محدود ہو گیا۔ پنجاب کے نقطہ نظر میں کالا باغ ڈیم دو دریاو ¿ں یعنی دریائے ستلج اور بیاس کی بھارت کو حوالگی کے نتیجے میں ہونے والے صوبائی نقصانات کا بہتر نعم البدل ثابت ہو سکتا ہے،یہ صوبائی نقصان بلاشبہ وفاقی سطح پر ہونے والی زیادتی ہے، جس کے ذمہ دار دوسرے صوبے بھی ہیں۔صوبہ پنجاب کی اس منصوبہ کی حمایت دراصل اس حقیقت سے بھی جڑی ہوئی ہے کہ کالا باغ بند سے تقریباً 3600 میگا واٹ بجلی حاصل ہو سکتی ہے جو پاکستان کی توانائی کے مسائل ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں ترقی کے نئے دور کا پیش خیمہ ثابت ہو گی کیونکہ پانی سے پیدا ہونے والی بجلی دوسرے ذریعہ سے حاصل ہونے والی توانائی کی نسبت انتہائی سستی ہے۔پنجاب نے اس منصوبہ پر اپنے موقف میں لچکداری کا مظاہرہ کیا ہے اور کالا باغ منصوبہ سے حاصل ہونے والی وفاقی سطح پر آمدنی سے حصہ وصول نہ کرنے کا اعلان کیا لیکن پھر بھی دوسرے صوبوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔ بدقسمتی سے پورے پاکستان میں ایک تکنیکی مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا گیا۔تجزیہ کار کالا باغ بند کی تعمیر کے حوالے سے اہمیت اس بات کو دیتے ہیں کہ یہ منصوبہ دراصل پنجاب اور باقی تین صوبوں کے درمیان عدم اعتماد کے کا سبب بنے گا۔تمام پاکستانی اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا ہے اور اس بارے جلد ہی کوئی مستقل حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اگر کالا باغ منصوبہ پر آج سے ہی کام شروع کر بھی دیا جائے تب بھی اسے مکمل اور فعال ہونے میں کم از کم آٹھ سال کا عرصہ درکار ہے، تب تک پانی کی دستیابی بارے حالات اور بھی خراب ہو چکے ہوں گے۔ تجزیہ کار اور تکنیکی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اتنے بڑے منصوبے پر عمل درآمد کی بجائے کئی چھوٹے بند، بیراج اور نہریں تعمیر کی جانی چاہیے۔ اس سے نہ صرف دوسرے صوبوں کے تحفظات بھی دور ہوں گے بلکہ یہ آبی، ماحولیاتی اور زرعی وسائل کو محفوظ بنانے کے لیے بہترین طریقہ بھی ہے، جس کی واضع مثال پنجاب اور سندھ میں نہری نظام کی شکل میں موجود ہے۔واپڈا جو کہ پاکستان میں بجلی اور توانائی کا وفاقی ادارہ ہے کئی سالوں سے کالا باغ بند بارے شماریاتی اعداد و شمار میں تبدیلیاں کرتا آیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار پر پاکستان کے کسی حصے میں کوئی بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حکومت پاکستان نے اس ضمن میں ایک تکنیکی کمیٹی اے۔ این۔ جی عباسی کی سربراہی میں تشکیل دی۔ اس کمیٹی کا مقصد کالا باغ بند کے منصوبے کے تکنیکی فوائد و نقصانات کا جائزہ لینا تھا۔ اس کمیٹی نے چار جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ میں واضع طور پر رائے دی کہ بھاشا بند اور کٹزرہ بند کی تعمیر پانی کے ذخائر بارے حالات خراب ہونے سے پہلے تعمیر کیے جانے چاہیے اور کالا باغ منصوبہ ملکی مفاد میں فی الحال پس پشت ڈال دینا مفید ہو گا۔ اس رپورٹ کی روشنی میں کالا باغ بند اور بھاشا بند دراصل انتہائی موزوں منصوبہ جات ہیں اور ان کی تعمیر مکمل کی جانی چاہیے۔ رپورٹ کے اس حصے پر کئی گھمبیر عوامی و سیاسی مسائل کے کھڑے ہونے کا قوی امکان ہے۔سابق صدر پرویز مشرف نے جس انداز میں اس معاملے کو اچھالا تھا، یہ کسی بھی طور پر وفاق کے لیے مثبت نہیں ہے۔ یہ دراصل ملک کے چھوٹے صوبوں کو اشتعال دلانے کے مترادف ہے اور وفاقی راہنماو ¿ں کو اس طرح کے طرز عمل سے گریز کرنا ہو گا کیونکہ اب یہ معاملہ انتہائی نازک نہج اختیار کر چکا ہے۔ سابق صدر کے اس بیان کہ کالا باغ بند کی تعمیر ہر حال میں کی جائے گی دراصل عوامی حلقوں میں بے چینی کا سبب بنی۔ یہاں تک کہ صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں صدر کے بیانات اور طرز عمل کی انتہائی مخالفت کی گئی۔ یاد رہے کہ صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع کالا باغ بند کے منصوبے سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والے علاقے ہیں۔
mediamanfrompk@gmail.com
وزیراعظم میاں نواز شریف نے سکھر کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورہ کے موقع پر ایک صحافی کے کالا باغ ڈیم سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ میں آپکے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا۔ کالا باغ ڈیم کے حوالے سے کوئی سوال جواب نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کافی عرصہ پہلے کالا باغ ڈیم کی حمایت کرتی تھی تاہم اب کچھ عرصے سے کالا باغ ڈیم پاکستان کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی، توانائی بحران اور دیگر مسائل کے حل کیلئے وفاق اور چاروں صوبوں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا۔ کالا باغ ڈیم کی افادیت اپنی جگہ موجود ہے لیکن تعمیر اتفاق رائے کے بغیر نقصان دہ ہو گی۔اس وقت ملک توانائی بحران اور بارشوں کے باعث سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے۔ ان دنوں بڑے مسائل کا حل کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں مضمر ہے۔ کالا باغ ڈیم کی افادیت پورے ملک کے سامنے ہے۔ اسکی تعمیر سے بجلی فی یونٹ ایک روپے پچاس پیسے ملے گی جبکہ سیلاب کے پانی کو بھی اسکے پونڈ میں محفوظ کرکے ایسے خشک سالی کے دوران بروئے کار لایا جا سکتا ہے اور اس سے سندھ اور بلوچستان کے خشک علاقوں کو بھی سیراب کیا جا سکتا ہے۔ 1991ءمیں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزراءاعلیٰ نے کالا باغ ڈیم بنانے پر اتفاق کیا تھا۔ اب بھی چند سیاستدانوں کے علاوہ پوری قوم اسکی تعمیر پر متفق ہے۔پنجاب جس کی بڑھتی آبادی ، صنعت و زراعت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی درکار ہے، کالاباغ بند کا منصوبہ بلاشبہ اس کی ان ضروریات کو نہ صرف پورا کر سکتا ہے بلکہ یہ پورے ملک کے لیے سستی بجلی کا ایک مستقل ذریعہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔پنجاب میں ایک عام رائے یہ ہے کہ بحیرہ عرب میں دریائے سندھ کا شامل ہونا دراصل پانی کے ذخیرے کا “ضائع“ ہو جانا ہے۔ یہ پانی ملک میں ان زمینوں کو سیراب کر سکتا ہے جو کہ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بنجر ہیں۔پنجاب کے نقطہ نظر میں کالاباغ بند کے علاوہ بھی دو بڑے منصوبے بھاشا بند اور سکر دو بند بھی تعمیر کیے جانے چاہیے۔ کالاباغ بند چونکہ ان تینوں منصوبوں میں بہتر وسائل کی دستیابی کی وجہ سے قابل عمل ہے تو اسے سب سے پہلے تعمیر ہونا چاہیے۔ بہاولپور اور بہاول نگر کے علاقے کالاباغ بند کے ذخیرے سے سب سے زیادہ مستفید ہوں گے۔پنجاب میں کالاباغ بند کی تعمیر کے حق میں کئی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں، بلکہ وقتاً فوقتاً عوامی سطح پر ایسے مظاہرے نقص امن کی بھی وجہ بنے ہیں۔ 1960ءکے اوائل میں بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کے معاہدوں پر پاکستان نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت ستلج اور بیاس کے حقوق بھارت کو دے دیے گئے۔ تب سے بھارت دریائے راوی، ستلج اور بیاس کو صرف سیلابی پانی کے اخراج کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے معاہدے کی رو سے ان دریاو ¿ں پر بند کی تعمیر کا حق رکھتا ہے۔ پاکستان کی وفاقی حکومت ان میں سے کسی بھی منصوبے پر واضع کامیابی حاصل نہیں کر سکی جس کے نتیجے میں صوبہ پنجاب کو فراہم کیا جانے والا پانی صرف تین دریاو ¿ں تک محدود ہو گیا۔ پنجاب کے نقطہ نظر میں کالا باغ ڈیم دو دریاو ¿ں یعنی دریائے ستلج اور بیاس کی بھارت کو حوالگی کے نتیجے میں ہونے والے صوبائی نقصانات کا بہتر نعم البدل ثابت ہو سکتا ہے،یہ صوبائی نقصان بلاشبہ وفاقی سطح پر ہونے والی زیادتی ہے، جس کے ذمہ دار دوسرے صوبے بھی ہیں۔صوبہ پنجاب کی اس منصوبہ کی حمایت دراصل اس حقیقت سے بھی جڑی ہوئی ہے کہ کالا باغ بند سے تقریباً 3600 میگا واٹ بجلی حاصل ہو سکتی ہے جو پاکستان کی توانائی کے مسائل ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں ترقی کے نئے دور کا پیش خیمہ ثابت ہو گی کیونکہ پانی سے پیدا ہونے والی بجلی دوسرے ذریعہ سے حاصل ہونے والی توانائی کی نسبت انتہائی سستی ہے۔پنجاب نے اس منصوبہ پر اپنے موقف میں لچکداری کا مظاہرہ کیا ہے اور کالا باغ منصوبہ سے حاصل ہونے والی وفاقی سطح پر آمدنی سے حصہ وصول نہ کرنے کا اعلان کیا لیکن پھر بھی دوسرے صوبوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔ بدقسمتی سے پورے پاکستان میں ایک تکنیکی مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا گیا۔تجزیہ کار کالا باغ بند کی تعمیر کے حوالے سے اہمیت اس بات کو دیتے ہیں کہ یہ منصوبہ دراصل پنجاب اور باقی تین صوبوں کے درمیان عدم اعتماد کے کا سبب بنے گا۔تمام پاکستانی اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا ہے اور اس بارے جلد ہی کوئی مستقل حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اگر کالا باغ منصوبہ پر آج سے ہی کام شروع کر بھی دیا جائے تب بھی اسے مکمل اور فعال ہونے میں کم از کم آٹھ سال کا عرصہ درکار ہے، تب تک پانی کی دستیابی بارے حالات اور بھی خراب ہو چکے ہوں گے۔ تجزیہ کار اور تکنیکی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اتنے بڑے منصوبے پر عمل درآمد کی بجائے کئی چھوٹے بند، بیراج اور نہریں تعمیر کی جانی چاہیے۔ اس سے نہ صرف دوسرے صوبوں کے تحفظات بھی دور ہوں گے بلکہ یہ آبی، ماحولیاتی اور زرعی وسائل کو محفوظ بنانے کے لیے بہترین طریقہ بھی ہے، جس کی واضع مثال پنجاب اور سندھ میں نہری نظام کی شکل میں موجود ہے۔واپڈا جو کہ پاکستان میں بجلی اور توانائی کا وفاقی ادارہ ہے کئی سالوں سے کالا باغ بند بارے شماریاتی اعداد و شمار میں تبدیلیاں کرتا آیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار پر پاکستان کے کسی حصے میں کوئی بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حکومت پاکستان نے اس ضمن میں ایک تکنیکی کمیٹی اے۔ این۔ جی عباسی کی سربراہی میں تشکیل دی۔ اس کمیٹی کا مقصد کالا باغ بند کے منصوبے کے تکنیکی فوائد و نقصانات کا جائزہ لینا تھا۔ اس کمیٹی نے چار جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ میں واضع طور پر رائے دی کہ بھاشا بند اور کٹزرہ بند کی تعمیر پانی کے ذخائر بارے حالات خراب ہونے سے پہلے تعمیر کیے جانے چاہیے اور کالا باغ منصوبہ ملکی مفاد میں فی الحال پس پشت ڈال دینا مفید ہو گا۔ اس رپورٹ کی روشنی میں کالا باغ بند اور بھاشا بند دراصل انتہائی موزوں منصوبہ جات ہیں اور ان کی تعمیر مکمل کی جانی چاہیے۔ رپورٹ کے اس حصے پر کئی گھمبیر عوامی و سیاسی مسائل کے کھڑے ہونے کا قوی امکان ہے۔سابق صدر پرویز مشرف نے جس انداز میں اس معاملے کو اچھالا تھا، یہ کسی بھی طور پر وفاق کے لیے مثبت نہیں ہے۔ یہ دراصل ملک کے چھوٹے صوبوں کو اشتعال دلانے کے مترادف ہے اور وفاقی راہنماو ¿ں کو اس طرح کے طرز عمل سے گریز کرنا ہو گا کیونکہ اب یہ معاملہ انتہائی نازک نہج اختیار کر چکا ہے۔ سابق صدر کے اس بیان کہ کالا باغ بند کی تعمیر ہر حال میں کی جائے گی دراصل عوامی حلقوں میں بے چینی کا سبب بنی۔ یہاں تک کہ صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں صدر کے بیانات اور طرز عمل کی انتہائی مخالفت کی گئی۔ یاد رہے کہ صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع کالا باغ بند کے منصوبے سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والے علاقے ہیں۔