Allah hates Kafirs?
Wednesday, 9 October 2013
Allah hates Kafirs? Column by ASHFAQ REHMANI
When the al Shabaab jihadi group from Somalia attacked the mall in Kenya, they gathered the crowd together and asked who were Muslims and let them go. According to the media, they then started killing the non-Muslims who were left. But non-Muslims are not the word what the terrorists would have used. No, they would have called them Kafirs (actually they would have called them the Arabic plural of kafir, kuffar.Kafirs is the Standard English plural form). According to American Thinker Writer and, Director, Center for the Study of Political Islam Mr. Bill Warner, Why did members of al Shabaab do this? Why did they ask the Muslims to leave and keep the Kafirs and start killing them? Let’s start with the word terrorists. Members of al Shabaab are not terrorists, they are jihadists or mujahedeen. That is what they call themselves.
مائے نی میں کینوں آکھاں....!!
چوتھا طبقہ....اشفاق رحمانی
لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کرنیوالے سپریم کورٹ کے سہ رکنی بینچ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ لاپتہ افراد کے ہر مقدمے میں حساس اداروں کا تعلق نکل آتا ہے۔ بازیاب ہونیوالے افراد کو اس طرح خوفزدہ کیا جاتا ہے کہ وہ کوئی بیان دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ وزارت داخلہ کے ریکارڈ کے مطا بق لا پتہ افراد کا اگر پتہ چلا یا جا ئے تو 2006 سے تا حال 1601 لا پتہ افراد کی گمشدگی کے کیس رجسٹرڈ ہو ئے جن میں سے خیبر پختو نخو اہ سے لا پتہ ہو نے والو ں کی تعداد 485 ہے ، بلو چستان سے 124 ، سندھ سے 170 اور پنجا ب سے 313 افراد لا پتہ ہو چکے ہیں تما م صوبائی حکو متو ں کے اندراج کے مطا بق اور محکمو ں واداروں کی را ئے سے کل لا پتہ افراد کی تعداد 2390 جا ری کی گئی ہے جبکہ اس عالمی شہرت یافتہ سوشل میڈیا تنظیم‘میڈیا ڈور‘ اور دیگر تحقیقا تی متعلقہ این جی او کی رپو رٹ کے مطابق یہ تعداد ایک لاکھ سے بھی زیا دہ ہے ، بلا شبہ لا پتہ افراد کا مسئلہ موجود ہ حا لا ت کے تنا ظر میں حساس تر ین صورتحال اختیا ر کر چکا ہے ۔لاپتہ افراد کا نہ ملنا ایک المیہ ہے ،لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بنائی گئی مشترکہ ٹیموں کی کارکردگی صفر ہے جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ کوئی بھی لاپتہ شخص بازیاب نہیں ہو سکے گا۔ملک کے شہریوں کو کسی نہ کسی مقام سے اٹھا کر لاپتہ کرنے کا جرنیلی آمروںسے شروعہوتا ہے جب دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے مشکوک افراد کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔اس وقت سے اب تک لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق مختلف تنظیموںکی طرف سے احتجاجی تحرییں جاری ہیں اور سپریم کورٹ بھی لاپتہ افراد کے مقدمات کی مسلسل سماعت کررہی ہے مگر لاپتہ افراد کیلئے بازیابی کی آج تک کوئی حوصلہ افزا پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔ عدالتی حکم پر متعدد لاپتہ افراد کو بازیاب بھی کرایا گیا جن کی حالت انتہائی خراب تھی جبکہ ان مقدمات کی سماعت کے دوران ہی یہ حقائق سامنے آتے رہے کہ بیشتر لاپتہ افراد ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ کر لاپتہ ہوئے ہیں تاہم متعلقہ اداروں کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے روبرو لاپتہ افراد کے معاملہ میں لاتعلقی کا اظہار کیا جاتا رہا۔ ایک عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی ملک کے شہریوں کو لاپتہ کرنے کے معاملات کی گتھی نہیں سلجھ رہی اس لئے عدالت عظمیٰ کو شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کی بنیاد پر‘ جس کے تحت ہر شہری کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے‘ ازخود اس کا نوٹس لینے کی ضرورت محسوس ہوئی جبکہ اس معاملہ میں تشویشناک صورتحال یہی نظر آتی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے باربار احکام جاری کرنے کے باوجود لاپتہ افراد کی بازیابی میں کوئی حوصلہ افزاءپیش رفت ہوئی‘ نہ لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ رک سکا۔ اس سلسلہ میں بالخصوص بلوچستان کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے جہاں سے سب سے زیادہ افراد کو لاپتہ کیا گیا اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے بینچ نے کوئٹہ میں بیٹھ کر لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے حکومتی ایجنسیوں کی بازپرس اور ان سے رپورٹس طلب کیں مگر اس مرض کا کوئی موثر علاج آج بھی کارگر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اگر حکومت ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے تو اسکی عملداری کے مظاہر نظر بھی آنے چاہئیں۔ ملک میں قانون اور عدالتیں موجود ہیں‘ چنانچہ کسی شہری نے کسی قابل دست اندازی پولیس جرم کا ارتکاب کیا ہو تو اسے قانون کے مطابق گرفتار کرکے عدالتی عملداری کی زد میں لایا جائے۔ اس کا جرم ثابت ہو گا تو وہ اسکی سزا بھی بھگت لے گا مگر قانون نافذ کرنیوالے کسی ادارے یا اداروں کو قطعاً یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی شبہ میں یا کوئی ثبوت ملنے پر کسی شخص کو حراست میں لے کر اس کیلئے خود ہی قانون اور خود ہی عدالت بن جائے۔ لاپتہ افراد کے مقدمات میں عدالت عظمیٰ ایجنسیوں کے ایسے ہی اقدامات کا نوٹس لے رہی ہے کہ انہیں کس قانون اور کس اتھارٹی کے تحت شہریوں کو گرفتار کرنے کے بعد خود ہی سزائیں دینے کا اختیار مل گیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اپنے سابقہ دور حکومت میں اسی تناظر میں پولیس مقابلوں کے ذریعے لوگوں کے ماورائے عدالت قتل کے مقدمات کی زد میں آئے تھے مگر بدقسمتی سے حکومت آج بھی ایجنسیوں کے ایسے کردار کی حمایت اور سرپرستی کرتی نظر آتی ہے جبکہ یہ صورتحال ملک میں افراتفری اور لاقانونیت پر منتج ہو سکتی ہے۔ آج کسی بھی شہری کو ان اداروں پر شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے قطعاً اعتماد نہیں رہا۔ ان اداروں کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملہ میں دیدہ دلیری کا اندازہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت لاپتہ افراد کے مقدمات سے ہی لگایا جا سکتا ہے جن میں بازیاب ہونیوالے لوگ بھی ایجنسیوں کے مظالم سے خوفزدہ ہو کر حقائق منظر عام پر لانے اور عدالتوں میں بیانات قلمبند کرانے سے گریز کرتے نظر آتے ہیں اس لئے ایسی صورتحال کسی مہذب معاشرے کی غمازی کرتی ہے‘ نہ آئین و قانون کی حکمرانی سے مطابقت رکھتی ہے جبکہ حکومتی ایجنسیوں کی ایسی لاقانونیت کے تناظر میں سلطانی جمہور کی گورننس پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ اگر عدالت عظمیٰ آج اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے کہ لاپتہ افراد کے ہر مقدمے میں حساس اداروں کا تعلق نکل آتا ہے تو یہ صورتحال موجودہ حکمرانوں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ قانون و امن نافذ کرنیوالا کوئی ادارہ اسکے کنٹرول میں کیوںنظر نہیں آرہا۔ سابقہ ادوار میں لوگوں کو رشوت دینے اور خوفزدہ کرنے کے معاملہ میں آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ کا عمل دخل رہا ہے جس کا اصغرخان کے کیس میں عدالت عظمیٰ نے نوٹس لیا اور حکومت کو یہ یقین دلانا پڑا کہ آئی ایس آئی کا پولیٹیکل ونگ ختم کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح اب حکومت کو خود ایجنسیوں کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور لوگوں کو لاپتہ کرکے انکی زندگیاں لینے کے شواہد پر موجود معاملات کا نوٹس لے کر ان اداروں کو شٹ اپ کال دینی اور لگام ڈالنی چاہیے‘ بصورت دیگر ایجنسیوں کے ایسے ماورائے آئین و قانون اقدامات سسٹم کیلئے بھی خطرے کا باعث بنے رہیں گے۔
لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کرنیوالے سپریم کورٹ کے سہ رکنی بینچ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ لاپتہ افراد کے ہر مقدمے میں حساس اداروں کا تعلق نکل آتا ہے۔ بازیاب ہونیوالے افراد کو اس طرح خوفزدہ کیا جاتا ہے کہ وہ کوئی بیان دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ وزارت داخلہ کے ریکارڈ کے مطا بق لا پتہ افراد کا اگر پتہ چلا یا جا ئے تو 2006 سے تا حال 1601 لا پتہ افراد کی گمشدگی کے کیس رجسٹرڈ ہو ئے جن میں سے خیبر پختو نخو اہ سے لا پتہ ہو نے والو ں کی تعداد 485 ہے ، بلو چستان سے 124 ، سندھ سے 170 اور پنجا ب سے 313 افراد لا پتہ ہو چکے ہیں تما م صوبائی حکو متو ں کے اندراج کے مطا بق اور محکمو ں واداروں کی را ئے سے کل لا پتہ افراد کی تعداد 2390 جا ری کی گئی ہے جبکہ اس عالمی شہرت یافتہ سوشل میڈیا تنظیم‘میڈیا ڈور‘ اور دیگر تحقیقا تی متعلقہ این جی او کی رپو رٹ کے مطابق یہ تعداد ایک لاکھ سے بھی زیا دہ ہے ، بلا شبہ لا پتہ افراد کا مسئلہ موجود ہ حا لا ت کے تنا ظر میں حساس تر ین صورتحال اختیا ر کر چکا ہے ۔لاپتہ افراد کا نہ ملنا ایک المیہ ہے ،لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بنائی گئی مشترکہ ٹیموں کی کارکردگی صفر ہے جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ کوئی بھی لاپتہ شخص بازیاب نہیں ہو سکے گا۔ملک کے شہریوں کو کسی نہ کسی مقام سے اٹھا کر لاپتہ کرنے کا جرنیلی آمروںسے شروعہوتا ہے جب دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے مشکوک افراد کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔اس وقت سے اب تک لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق مختلف تنظیموںکی طرف سے احتجاجی تحرییں جاری ہیں اور سپریم کورٹ بھی لاپتہ افراد کے مقدمات کی مسلسل سماعت کررہی ہے مگر لاپتہ افراد کیلئے بازیابی کی آج تک کوئی حوصلہ افزا پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔ عدالتی حکم پر متعدد لاپتہ افراد کو بازیاب بھی کرایا گیا جن کی حالت انتہائی خراب تھی جبکہ ان مقدمات کی سماعت کے دوران ہی یہ حقائق سامنے آتے رہے کہ بیشتر لاپتہ افراد ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ کر لاپتہ ہوئے ہیں تاہم متعلقہ اداروں کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے روبرو لاپتہ افراد کے معاملہ میں لاتعلقی کا اظہار کیا جاتا رہا۔ ایک عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی ملک کے شہریوں کو لاپتہ کرنے کے معاملات کی گتھی نہیں سلجھ رہی اس لئے عدالت عظمیٰ کو شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کی بنیاد پر‘ جس کے تحت ہر شہری کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے‘ ازخود اس کا نوٹس لینے کی ضرورت محسوس ہوئی جبکہ اس معاملہ میں تشویشناک صورتحال یہی نظر آتی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے باربار احکام جاری کرنے کے باوجود لاپتہ افراد کی بازیابی میں کوئی حوصلہ افزاءپیش رفت ہوئی‘ نہ لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ رک سکا۔ اس سلسلہ میں بالخصوص بلوچستان کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے جہاں سے سب سے زیادہ افراد کو لاپتہ کیا گیا اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے بینچ نے کوئٹہ میں بیٹھ کر لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے حکومتی ایجنسیوں کی بازپرس اور ان سے رپورٹس طلب کیں مگر اس مرض کا کوئی موثر علاج آج بھی کارگر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اگر حکومت ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے تو اسکی عملداری کے مظاہر نظر بھی آنے چاہئیں۔ ملک میں قانون اور عدالتیں موجود ہیں‘ چنانچہ کسی شہری نے کسی قابل دست اندازی پولیس جرم کا ارتکاب کیا ہو تو اسے قانون کے مطابق گرفتار کرکے عدالتی عملداری کی زد میں لایا جائے۔ اس کا جرم ثابت ہو گا تو وہ اسکی سزا بھی بھگت لے گا مگر قانون نافذ کرنیوالے کسی ادارے یا اداروں کو قطعاً یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی شبہ میں یا کوئی ثبوت ملنے پر کسی شخص کو حراست میں لے کر اس کیلئے خود ہی قانون اور خود ہی عدالت بن جائے۔ لاپتہ افراد کے مقدمات میں عدالت عظمیٰ ایجنسیوں کے ایسے ہی اقدامات کا نوٹس لے رہی ہے کہ انہیں کس قانون اور کس اتھارٹی کے تحت شہریوں کو گرفتار کرنے کے بعد خود ہی سزائیں دینے کا اختیار مل گیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اپنے سابقہ دور حکومت میں اسی تناظر میں پولیس مقابلوں کے ذریعے لوگوں کے ماورائے عدالت قتل کے مقدمات کی زد میں آئے تھے مگر بدقسمتی سے حکومت آج بھی ایجنسیوں کے ایسے کردار کی حمایت اور سرپرستی کرتی نظر آتی ہے جبکہ یہ صورتحال ملک میں افراتفری اور لاقانونیت پر منتج ہو سکتی ہے۔ آج کسی بھی شہری کو ان اداروں پر شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے قطعاً اعتماد نہیں رہا۔ ان اداروں کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملہ میں دیدہ دلیری کا اندازہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت لاپتہ افراد کے مقدمات سے ہی لگایا جا سکتا ہے جن میں بازیاب ہونیوالے لوگ بھی ایجنسیوں کے مظالم سے خوفزدہ ہو کر حقائق منظر عام پر لانے اور عدالتوں میں بیانات قلمبند کرانے سے گریز کرتے نظر آتے ہیں اس لئے ایسی صورتحال کسی مہذب معاشرے کی غمازی کرتی ہے‘ نہ آئین و قانون کی حکمرانی سے مطابقت رکھتی ہے جبکہ حکومتی ایجنسیوں کی ایسی لاقانونیت کے تناظر میں سلطانی جمہور کی گورننس پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ اگر عدالت عظمیٰ آج اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے کہ لاپتہ افراد کے ہر مقدمے میں حساس اداروں کا تعلق نکل آتا ہے تو یہ صورتحال موجودہ حکمرانوں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ قانون و امن نافذ کرنیوالا کوئی ادارہ اسکے کنٹرول میں کیوںنظر نہیں آرہا۔ سابقہ ادوار میں لوگوں کو رشوت دینے اور خوفزدہ کرنے کے معاملہ میں آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ کا عمل دخل رہا ہے جس کا اصغرخان کے کیس میں عدالت عظمیٰ نے نوٹس لیا اور حکومت کو یہ یقین دلانا پڑا کہ آئی ایس آئی کا پولیٹیکل ونگ ختم کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح اب حکومت کو خود ایجنسیوں کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور لوگوں کو لاپتہ کرکے انکی زندگیاں لینے کے شواہد پر موجود معاملات کا نوٹس لے کر ان اداروں کو شٹ اپ کال دینی اور لگام ڈالنی چاہیے‘ بصورت دیگر ایجنسیوں کے ایسے ماورائے آئین و قانون اقدامات سسٹم کیلئے بھی خطرے کا باعث بنے رہیں گے۔
Wednesday, 2 October 2013
150 Christian families were residing
ashfaq rehmani: In the hunt for an alleged blasphemer, hundreds of enraged Muslims charged a Christians’ locality forcing the inhabitants to flee for their lives in the Badami Bagh police area here Friday.About two to three thousand people, according to police, gathered around the Joseph Colony at Noor Road following Shafiq Ahmed who was searching for an accused Christian, Savan alias Bubby, to kill him. The mob attacked the house of Savan, burnt it partially, pelting bricks at other houses where about 150 Christian families were residing.
Subscribe to:
Posts (Atom)